تحریر و تحقیق اکرام بھٹی
دفترِ خارجہ کا آج کا بیانیہ دراصل ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان اپنی سلامتی، خودمختاری اور سرحدی استحکام کے معاملے میں اب کسی قسم کی مصلحت یا دباؤ برداشت نہیں کرے گا۔ اسلام آباد میں غیر ملکی سفیروں کو دی گئی بریفنگ کے دوران سیکرٹری خارجہ آمنہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان علاقائی سالمیت اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ یہ بیان محض سفارتی روایت نہیں بلکہ بدلتے ہوئے علاقائی حالات کے تناظر میں ایک مؤثر سفارتی اعلان ہے۔ گزشتہ ہفتوں میں پاک افغان سرحد پر بڑھتی ہوئی جھڑپوں نے خطے میں ایک نیا تناؤ پیدا کیا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ واضح رہا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن زمینی حقائق اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ دوحہ معاہدے کے بعد کیے گئے وعدوں پر طالبان حکومت کی عملداری اب بھی مشکوک ہے۔ دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں دوحہ معاہدے کا حوالہ دراصل عالمی برادری کو ایک یاددہانی ہے کہ افغانستان میں امن اور استحکام صرف پاکستان کی ذمہ داری نہیں ، یہ ایک بین الاقوامی وعدہ ہے۔ اگر طالبان حکومت اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں سے پاک رکھنے میں ناکام رہتی ہے تو اس کے نتائج پورے خطے کو بھگتنے ہوں گے۔ اس بیان سے یہ تاثر بھی ابھر رہا ہے کہ وزارتِ داخلہ اور وزارتِ خارجہ ایک ہی سمت میں سوچ اور عمل کر رہی ہیں۔ اندرونِ ملک دہشت گردی کے خلاف آپریشنز ہوں یا بیرونی سطح پر افغان حکومت سے سخت پیغام پاکستان اب یکساں بیانیہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ وہ پاکستان ہے جو امن چاہتا ہے مگر کمزوری کے تاثر کے بغیر۔ جو مذاکرات کی راہ پر ہے مگر اپنے اصولوں سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ اور یہی دفترِ خارجہ کے بیانیے کا خلاصہ ہے ، دفاع، وقار اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔

