Friday, December 5, 2025
No menu items!
HomeUncategorizedپنجاب کا ویمن پروٹیکشن بل عورت کی عزت و سلامتی کی نئی...

پنجاب کا ویمن پروٹیکشن بل عورت کی عزت و سلامتی کی نئی ضمانت

✍️ تحریر و تحقیق
فریحہ منصب

پاکستان کے سماجی و ثقافتی ڈھانچے میں عورت ہمیشہ سے ایک اہم کردار کی حامل رہی ہے چاہے وہ گھر کی پرامن فضا قائم کرنے والی ماں ہو، درس و تدریس کی خدمت کرنے والی استانی، یا میدانِ عمل میں برسرِپیکار ایک بہادر کارکن۔ مگر افسوس کہ اسی معاشرے میں عورت اکثر ظلم، تشدد اور ناانصافی کا نشانہ بھی بنتی رہی ہے۔ ایسے میں پنجاب حکومت کی جانب سے ویمن پروٹیکشن بل اور اس سے منسلک عملی اقدامات، عورت کے وقار اور سلامتی کے لیے ایک روشن پیش رفت سمجھی جا سکتی ہے ریاستی ذمہ داری سے عملی اقدام تک , پنجاب حکومت نے حالیہ مہینوں میں خواتین کے تحفظ کے لیے متعدد ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ لاہور اور ملتان میں جدید ویمن پروٹیکشن سینٹرز کا قیام، یقیناً ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مراکز نہ صرف شکایات درج کرانے کا مقام ہیں بلکہ یہاں متاثرہ خواتین کو قانونی امداد، نفسیاتی مشاورت، پناہ، اور پولیس تحفظ سب ایک ہی چھت تلے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان سینٹرز کے لیے جامع ایس او پیز (Standard Operating Procedures) مرتب کیے گئے ہیں تاکہ ہر کیس کی شفاف تفتیش اور فوری کارروائی ممکن بنائی جا سکے۔ یہ ایک نیا ماڈل ہے جس میں صرف “شکایت” نہیں، بلکہ “شفا” اور “انصاف” دونوں شامل ہیں۔ قانون سازی اور اتھارٹی کی مضبوطی , حکومتِ پنجاب نے نہ صرف پروٹیکشن آف ویمن اگینسٹ وائلنس ایکٹ 2016” کو ازسرِنو فعال کیا ہے بلکہ پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ 2017 کے تحت رولز اور ضابطۂ کار میں اہم ترامیم کی ہیں۔ اس اتھارٹی کو اب وسیع اختیارات دیے گئے ہیں تاکہ ہر ضلع میں خواتین کے تحفظ کے اقدامات کو مانیٹر کیا جا سکے۔ اسی سلسلے میں پنجاب ایسڈ کنٹرول بل 2025 بھی پیش کیا گیا ہے، جو تیزاب گردی جیسے گھناؤنے جرائم کی روک تھام میں بنیادی کردار ادا کرے گا۔ سہولتیں ، فنڈنگ اور منصوبہ بندی , ویمن پروٹیکشن اتھارٹی کے لیے مالی پالیسی کی منظوری دی جا چکی ہے، جس کے تحت نئے سینٹرز کے قیام اور موجودہ اداروں کی اپ گریڈیشن کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کیے گئے ہیں۔ ساتھ ہی آئندہ پانچ سالہ اسٹریٹجک پلان اور کمیونیکیشن اسٹریٹیجی بھی تیار کی گئی ہے تاکہ نہ صرف قانون لاگو ہو بلکہ عوام میں شعور بھی بیدار ہو۔
ہنگامی حالات میں مدد کے لیے ہیلپ لائن “1737” پہلے سے فعال ہے، جو فوری پولیس، قانونی یا نفسیاتی مدد فراہم کرتی ہے امیدیں اور چیلنجز , یہ اقدامات یقیناً قابلِ تعریف ہیں مگر ان کے مؤثر نتائج اسی وقت سامنے آئیں گے جب ان پر عمل درآمد میں سنجیدگی، شفافیت اور تسلسل برقرار رکھا جائے۔ چیلنجز ابھی موجود ہیں وسائل کی کمی اور تربیت یافتہ عملے کا فقدان , دیہی علاقوں میں رسائی کے مسائل ، خواتین کی جانب سے شکایات کے اندراج میں معاشرتی دباؤ یہ وہ عوامل ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ عورت کا تحفظ، قوم کی بقا معاشرتی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عورت خود کو محفوظ، بااختیار اور باعزت محسوس نہ کرے۔ پنجاب حکومت کے حالیہ اقدامات اسی سمت ایک مثبت پیش رفت ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان قوانین کو فائلوں تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ ان کے ثمرات ہر گھر، ہر محلے اور ہر دل تک پہنچیں۔ اگر ہم واقعی ایک مہذب اور منصف معاشرہ چاہتے ہیں تو عورت کے تحفظ کو محض “پالیسی” نہیں بلکہ “ایمان” بنانا ہوگا۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments