اداریہ — نیوز سینٹرز پاکستان
ریاستی نظم و ضبط کی نئی لکیر — مذہبی سیاست کی حد بندی یا سیاسی پیغام…؟
وفاقی وزارتِ داخلہ کی جانب سے تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سربراہ سعد حسین رضوی، ان کے بھائی انس رضوی، اور دیگر 290 رہنماؤں و مالی معاونین کے نام پروویژنل نیشنل آئیڈینٹی فکیشن لسٹ (PNIL) میں شامل کیے جانا پاکستان میں مذہبی سیاست کے لیے ایک نیا باب کھولتا ہے۔
یہ اقدام محض سفری پابندی نہیں بلکہ ریاست کی انسدادِ شدت پسندی حکمتِ عملی کا واضح اظہار ہے، جس کے ذریعے حکومت یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کی گنجائش اب ریاستی ڈھانچے میں باقی نہیں رہی۔
ریاست کی حکمتِ عملی اور ادارہ جاتی عملداری
وزارتِ داخلہ کے مطابق یہ اقدام قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ سفارشات پر کیا گیا،
جبکہ ایف آئی اے اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) کو ہدایت دی گئی ہے کہ
تمام ایئرپورٹس، سرحدی راستوں اور زمینی چیک پوائنٹس پر نگرانی سخت کی جائے۔
یہ واضح اشارہ ہے کہ حکومت مذہبی تنظیموں کی سرگرمیوں کو نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی نقل و حرکت تک محدود کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
مالیاتی پہلو اور ریاستی نگرانی
ٹی ایل پی کے مالیاتی نیٹ ورک پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق کئی رہنماؤں کو انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997 کی چہارم شیڈول میں شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
یہ وہ فہرست ہے جس میں شامل افراد کے مالی لین دین، بینک اکاؤنٹس، اور جائیدادوں کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے۔
مذہبی اداروں کا نیا انتظامی نقشہ
پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ٹی ایل پی کے زیرِ انتظام تقریباً 300 مساجد اور 125 مدارس کو ’’اعتدال پسند‘‘ علمائے کرام کے حوالے کیا جائے گا۔
یہ اقدام مذہبی ڈھانچے میں ریاستی مداخلت کا نیا ماڈل متعارف کراتا ہے —
جس میں حکومت براہِ راست مذہبی اداروں کو منظم کرنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ مذہبی جذبات کو شدت پسندی کے بجائے امن اور اعتدال کی راہ دی جا سکے۔
ممکنہ اثرات اور خدشات
یہ اقدام یقیناً قومی سلامتی کے لیے ایک قدم ہے، مگر اس کے اثرات سیاسی اور سماجی سطح پر گہرے ہوں گے۔
اگر حکومت اس فیصلے کو شفاف قانونی عمل کے ساتھ آگے بڑھاتی ہے تو یہ مذہبی سیاست میں توازن پیدا کر سکتا ہے۔
تاہم اگر یہ اقدام صرف وقتی ردعمل یا سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہوا تو یہ مذہبی محاذ آرائی کو جنم دے سکتا ہے۔
اداریہ کی رائے
نیوز سینٹرز پاکستان کے مطابق
ریاست کا یہ قدم پاکستان کے سیاسی و مذہبی توازن کی نئی بنیاد رکھ سکتا ہے۔
اگر اس فیصلے میں قانون، شفافیت اور استقامت برقرار رہی تو یہ عمل ملک میں انتہا پسندی کے خاتمے اور ادارہ جاتی عملداری کے قیام کی سمت ایک تاریخی پیش رفت ثابت ہوگا۔
ورنہ یہ اقدام ایک اور وقتی ’’سرد مہری‘‘ کے بعد تاریخ کے شور میں دب کر رہ جائے گا۔
اداریہ
ہر خبر کا رخ — سچ کی جانب
نیوز سینٹرز پاکستان
