Friday, December 5, 2025
No menu items!
HomeColumnistPAKISTAN TALIBAN TENSIONS ESCALATE AS KHWAJA ASIF ISSUES STRONG WARNING TO KABUL...

PAKISTAN TALIBAN TENSIONS ESCALATE AS KHWAJA ASIF ISSUES STRONG WARNING TO KABUL REGIME

اداریہ — نیوز سینٹرز پاکستان

قلم: ادارتی بورڈ | تاریخِ اشاعت: 30 اکتوبر 2025ء


”امن کی پیشکش سے تورا بورا کی دھمکی تک“ — کیا پاکستان اور طالبان پھر تصادم کے دہانے پر؟

وزیرِ دفاع خواجہ محمد آصف کے حالیہ ٹوئٹ نے خطے کی خاموش فضا میں ایک بار پھر ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔
یہ بیان محض ایک سیاسی پیغام نہیں بلکہ ایک تزویراتی انتباہ بھی ہے — جو کابل کی طالبان حکومت اور اس کے عسکری نیٹ ورک کے لیے براہِ راست وارننگ کی حیثیت رکھتا ہے۔

خواجہ آصف نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان کو طالبان رجیم کو ختم کرنے کے لیے اپنی پوری طاقت استعمال کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر افغان طالبان نے مہم جوئی کی تو تورا بورا جیسے مناظر دوبارہ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔
یہ الفاظ کسی عام سیاسی بیان کے نہیں بلکہ طاقت کے اظہار کی علامت ہیں — اور اس کا مطلب صرف افغان حکومت نہیں بلکہ دنیا کے لیے بھی واضح پیغام ہے کہ پاکستان اب مزید تحمل دکھانے کے موڈ میں نہیں۔


ڈپلومیسی بمقابلہ دفاعی بیانیہ

گزشتہ چند ماہ میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان کئی سطحوں پر بات چیت جاری رہی، جن میں استنبول مذاکرات بھی شامل تھے۔
مگر ان مذاکرات کا نتیجہ عملی طور پر صفر نکلا۔
طالبان حکام کے متضاد بیانات اور سرحدی جھڑپوں نے پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا۔
اس کے باوجود پاکستان نے برادر ممالک — بالخصوص سعودی عرب، ترکی اور قطر — کی درخواست پر مذاکرات کی راہ اپنائی۔
تاہم، طالبان حکومت کے بعض بیانات نے اس امید کو ایک بار پھر خاک میں ملا دیا۔

پاکستان اب یہ باور کرا رہا ہے کہ امن کی پیشکش کمزوری نہیں بلکہ تحمل ہے۔
اور اگر تحمل کا امتحان لیا گیا تو ردعمل کی نوعیت تورا بورا کی تاریخ یاد دلا سکتی ہے۔


تاریخ دہرانے کی دھمکی یا حکمتِ عملی؟

“تورا بورا” کا حوالہ دراصل 2001ء کے اُس مشہور معرکے کی یاد دلاتا ہے جہاں افغان طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
خواجہ آصف کے بیان میں یہی پیغام چھپا ہے —
کہ پاکستان اگر چاہے تو طالبان کے جنگی نیٹ ورک کو دوبارہ زمینی شکست دے سکتا ہے،
مگر وہ ایسا کرنا نہیں چاہتا، جب تک کہ طالبان خود اس راہ پر نہ چلیں۔

یہ الفاظ ایک اسٹریٹیجک ناراضگی کی علامت ہیں،
یعنی پاکستان نے نہ صرف دھمکی دی بلکہ اپنی عسکری خوداعتمادی کو بین الاقوامی سطح پر دوبارہ نمایاں کیا ہے۔


افغانستان: سلطنتوں کا قبرستان یا طالبان کا جبرستان؟

وزیرِ دفاع نے اپنے ٹوئٹ میں یہ تاریخی جملہ بھی کہا:

“پاکستان خود کو کسی سلطنت کا وارث نہیں کہتا، لیکن افغانستان طالبان کی وجہ سے اپنے ہی عوام کے لیے قبرستان بن چکا ہے۔”

یہ جملہ نہایت معنی خیز ہے۔
یہ صرف طالبان حکومت پر تنقید نہیں بلکہ افغان معاشرے میں جاری انتشار، داخلی گروہ بندی، اور جنگی معیشت کے تسلسل پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ دنیا کو یہ دکھائے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عملی اقدامات کے لیے سنجیدہ ہے۔


ممکنہ نتائج — ایک نیا سفارتی موڑ

  1. اگر طالبان حکومت اپنے لہجے میں نرمی نہیں لاتی تو سرحدی کارروائیاں بڑھنے کا خدشہ ہے۔
  2. پاکستان اقوامِ متحدہ، او آئی سی اور علاقائی فورمز میں طالبان کے رویے کو اجاگر کر سکتا ہے۔
  3. کسی بھی عسکری جھڑپ کی صورت میں عالمی میڈیا بیانیہ طالبان کے خلاف جا سکتا ہے۔

اختتامی تجزیہ

خواجہ آصف کا بیان دراصل ڈپلومیسی کی ناکامی اور عسکری عزم کے اعلان کے درمیان ایک باریک لکیر ہے۔
پاکستان کا پیغام صاف ہے:

“ہم نے امن کی پیشکش کی، لیکن اگر تم نے جنگ چھیڑی تو انجام تمہارا اپنا ہوگا۔”

افغانستان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے —
اگر طالبان اپنی داخلی کمزوری کو چھپانے کے لیے بیرونی محاذ کھولتے ہیں،
تو نہ صرف کابل بلکہ پورا خطہ ایک نئے بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔



اداریہ: نیوز سینٹرز پاکستان
“ہر خبر کا رخ — سچ کی جانب”

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments