کراچی کی سیاسی فضا اُس دن گواہ بنی جب عوامی شاعر حبیب جالب اور عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو آمنے سامنے ہوئے۔ جالبؔ نے درباری ماحول میں وہ بات کہہ دی جو صدیوں سے رعایا کے دل میں دبی ہوئی تھی۔
جب بھٹو صاحب نے فرمائش کی کہ “جالب، کوئی نظم سناؤ!” تو جالب نے لب کھولے اور سچ کا طوفان چھوڑ دیا —
“کھیت وڈیروں سے لے لو،
ملیں لٹیروں سے لے لو،
ملک اندھیروں سے لے لو،
رہے نہ کوئی عالی جاہ،
پاکستان کا مطلب کیا — لا الہ الا اللہ!”
یہ اشعار وڈیروں کے ضمیر پر بجلی بن کر گرے۔ دربار میں خاموشی چھا گئی، چہرے زرد پڑ گئے۔ اور جب یہ درباری محفل رخصت ہوئی تو بھٹو نے گلہ کیا:
“یار جالب! تم نے میرے مہمانوں کو شرمندہ کردیا۔ موقع محل دیکھ کر بات کرنی چاہیے تھی۔”
جالب نے مسکرا کر وہ تاریخی جملہ کہا جو آج بھی اقتدار کے ایوانوں میں گونجتا ہے:
“مسٹر بھٹو! یہ نظم ہے، آپ کی تقریر نہیں — جو لیاقت باغ میں کچھ اور ہو، اور نشتر پارک میں کچھ اور!”
یہ مکالمہ صرف دو شخصیات کا نہیں تھا، یہ ضمیر اور اقتدار کا تصادم تھا۔
ایک طرف وہ شاعر تھا جو غریب کی زبان بن کر بولا، دوسری طرف وہ لیڈر جس کے گرد طاقت کے غلاموں کا ہجوم تھا۔
یہ واقعہ قوم کے لیے پیغام ہے —
🔹 سچ ہمیشہ تلخ ہوتا ہے مگر زندہ رہتا ہے۔
🔹 شاعر کا قلم اگر بک جائے تو ضمیر مر جاتا ہے۔
🔹 اور سیاست اگر اصول کھو دے تو انقلاب ناگزیر ہو جاتا ہے۔
حبیب جالب نے ایک نظم سے درباری سیاست کا چہرہ ننگا کیا۔
انہوں نے بتا دیا کہ “الفاظ اگر خالص ہوں، تو ایک شاعر بادشاہوں سے بڑا ہو جاتا ہے!”
یہ واقعہ آج کے حکمرانوں کے لیے آئینہ ہے —
اقتدار چند دن کا ہے، مگر عوام کی آواز صدیوں گونجتی ہے۔
اور وہ آواز ہے —
“کھیت وڈیروں سے لے لو… پاکستان کا مطلب کیا — لا الہ الا اللہ!”
جڑے رہیں تجزیاتی و تحقیقی رپورٹس کے لیے
ہر خبر کا رخ سچ کی جانب — نیوز سینٹرز پاکستان
