کمال اتاترک کا راستہ… اور ہماری نئی سیاسی منزل؟
شہباز شریف صاحب اور مریم نواز صاحبہ
اگر برا نہ مانیں تو ایک سوال ہے —
کیا آپ واقعی کمال اتاترک کو جانتے ہیں؟
یا پھر آپ کے کسی “سیکولر مشیر” نے آپ کو اُس شخص کی مدح سرائی کا مشورہ دے دیا ہے جس نے اسلام کی روح کو ترکِ ارضِ اناطولیہ سے مٹا دیا تھا؟
تاریخ کے اوراق چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ 1924ء میں خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ اسی شخص کے ہاتھوں ہوا۔ اُس نے اسلامی شریعت منسوخ کی، عربی زبان پر پابندی لگائی، مدارس بند کیے، حجاب جرم بنا، اور مساجد سے اللہ اکبر کی صدا چھین لی۔ حج اور عمرہ جیسے ارکان پر بھی قدغن لگائی گئی۔
اتاترک نے اسلام کے بنیادی ڈھانچے کو مٹا کر ترکی کو مغربیت کا غلام بنایا۔ اُس نے قرآن کے الفاظ کا مذاق اڑاتے ہوئے پارلیمان میں کہا
“ہم اب بیسویں صدی میں ہیں، ہم اُس کتاب کے پیچھے نہیں چل سکتے جو انجیر اور زیتون کی بات کرتی ہے!”
یہی وہ جملہ تھا جس پر آسمان لرز گیا، اور زمین نے بددعا کی۔ روایت ہے کہ اُس کی موت ایک ایسی بیماری سے ہوئی جس کا علاج بعد میں انجیر کی چھال سے نکالا گیا — گویا قدرت نے اُسے خود قرآن کے الفاظ سے جواب دیا۔
آج جب پاکستان کے حکمران طبقے سے اتاترک کے افکار کی تعریف سنی جاتی ہے تو دل کانپ جاتا ہے۔
کیا ہم نے وہ سب کچھ بھلا دیا جو قائداعظم نے اسلام کے نام پر حاصل کیا تھا؟
کیا ہمیں اب دوبارہ اُس راستے پر ڈالنے کی تیاری کی جا رہی ہے جس نے ترکی کو مغرب کی تہذیبی غلامی میں جکڑ دیا؟
شہباز شریف صاحب، مریم نواز صاحبہ
یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔
یہاں “لا الٰہ الا اللہ” کا پرچم بلند ہونا تھا، نہ کہ “سیکولرازم زندہ باد” کے نعرے۔
اگر آپ کے مشیر آپ کو کمال اتاترک کی روش پر چلنے کی تلقین کر رہے ہیں، تو یاد رکھیں — یہی وہ روش ہے جس نے امتِ مسلمہ کی آخری خلافت کو ختم کیا تھا۔
کاش آج مرحوم میاں محمد شریف زندہ ہوتے
وہ ضرور کہتے کہ اقتدار سے زیادہ اہم ایمان ہے
اور سیاست سے بڑھ کر ذمہ داری ہے دین کی پاسداری۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
“فَأَهْلَكْنَا أَشَدَّ مِنْهُم بَطْشًا وَمَضَىٰ مَثَلُ الأَوَّلِينَ”
“ہم نے ان سے بھی زیادہ طاقتور لوگوں کو ہلاک کیا، اور پچھلوں کی مثال عبرت بن گئی۔”
یہ وقت ہے کہ ہم سوچیں
ہمیں قائداعظم کا پاکستان چاہیے یا اتاترک کا ترکی؟
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے، مگر تاریخ گواہ ہے کہ جو قوم اپنے دین سے منہ موڑتی ہے
اسے پھر نہ اللہ بچاتا ہے، نہ وقت۔
جڑے رہیں تجزیاتی خبروں کے لیے — ہر خبر کا رخ سچ کی جانب — نیوز سینٹرز پاکستان
📍 ادارہ جاتی رائے سے یہ کالم متفق یا مختلف ہو سکتا ہے۔
