اسلام آباد نیوز ڈیسک اکرام بھٹی
طورخم سرحد جزوی طور پر کھلنے کے باوجود تجارتی قافلے تاحال بند ہیں۔ سرحد کی بندش نے دونوں ملکوں کے معاشی اعصاب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ انسانی ہمدردی کے تحت افغان مہاجرین کو واپسی کی اجازت تو دے دی گئی، مگر دوطرفہ تجارت کا پہیہ رک جانے سے ہزاروں مزدور، ٹرک ڈرائیور اور کاروباری طبقہ شدید مالی بحران میں مبتلا ہیں۔
سرحد چیمبر آف کامرس کے سابق سینئر نائب صدر کے مطابق، “اس بندش سے افغانستان کو پاکستان کے مقابلے میں دوگنا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔” انہوں نے انکشاف کیا کہ سینکڑوں کنٹینر خوراک، ادویات اور ایندھن سے بھرے تاحال سرحدی علاقے میں پھنسے ہیں، جہاں اشیائے خور و نوش خراب ہو رہی ہیں اور روزانہ لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہو رہا ہے۔
تجزیاتی رپورٹس کے مطابق، اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو دونوں ملکوں کی معیشتوں میں اعتماد کا بحران پیدا ہو جائے گا۔ طورخم کی بندش صرف ایک سرحدی معاملہ نہیں، بلکہ ایک ایسا معاشی زخم ہے جو دونوں ممالک کے عوام کی روزی روٹی پر کاری ضرب لگا رہا ہے۔
اکرام بھٹی کے مطابق، “یہ وقت ضد نہیں، حکمت کا ہے۔ تجارت کی بحالی امن کی کنجی ہے، کیونکہ جب سرحدیں بند ہوتی ہیں تو دشمن نہیں، بھوک پیدا ہوتی ہے۔”
یہ تحریر ایک سبق ہے کہ خطے کی خوشحالی امن، رابطے اور بھروسے میں مضمر ہے — ورنہ تاریخ خود گواہ ہے کہ بند دروازے کبھی خوش حالی نہیں لاتے۔
نیوز سینٹرز پاکستان
جڑے رہیں ملکی و غیر ملکی تجزیاتی تازہ ترین خبروں کے لیے — ہر خبر کا رخ سچ کی جانب
