ایوبی دوئم اور پاکستان کے غریب عوام — قرضوں کی دلدل، اشرافیہ کی عیاشی، قوم کا امتحان!
پاکستان کی معیشت پر ایک اور قیامت گزر چکی ہے
صرف ایک سال میں دس ہزار ارب روپے کا نیا قرضہ!
جی ہاں! دس ہزار ارب — اتنی بڑی رقم جو اگر عوام پر خرچ کی جاتی تو ملک کے ہر غریب گھر میں خوشحالی کے چراغ جل سکتے تھے۔
مگر یہ رقم صرف پانچ فیصد اونچے طبقے کی تجوریاں بھرنے کے لیے لی گئی،
اور پچانوے فیصد عوام اب اپنی آنے والی نسلوں سمیت اس قرضے کے سود میں ڈوبی رہیں گی۔
یہی وہ طبقہ ہے جس کے بچے غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں،
جن کے گھروں کے بجلی کے بل، گاڑیوں کا پٹرول، حتیٰ کہ سرکاری دعوتوں کا کھانا بھی عوام کے خون پسینے سے بھرا جاتا ہے۔
ریاست مقروض ہے مگر بابوؤں اور حکمرانوں کے عشرت کدے آج بھی جگمگا رہے ہیں۔
قوم کے اعصاب پر قرض کا شکنجہ — “یہ نظام اب نہیں چل سکتا!”
ڈاکٹر ابراہیم مغل کا کہنا ہے کہ اب یہ وقت “تبدیلی” نہیں بلکہ “احتساب” کا ہے۔
ان کے بقول یہ دس ہزار ارب روپے کسی ترقیاتی منصوبے کے لیے نہیں بلکہ عیاشی کو برقرار رکھنے کے لیے لیے گئے ہیں۔
اگر فوج اب بھی خاموش رہی تو یاد رکھیں
یہ قرضے ملک کو غلامی کی آخری سیڑھی تک لے جائیں گے۔
لہٰذا اب آرمی کو مکمل مالیاتی تجزیہ کرنا ہوگا،
کہ کیوں اتنا قرضہ لیا گیا، کس نے خرچ کیا، اور کس کی جیب میں گیا۔
یہ وہ سوال ہے جو آج ہر غریب پاکستانی کے دل سے اٹھ رہا ہے:
“میری مزدوری کا پیسہ کہاں گیا؟ میری قربانیوں کا حساب کون دے گا؟”
“فیصل مسجد کمیٹی” — ملک کے بچاؤ کا نسخہ
ڈاکٹر مغل کی تجویز ہے کہ اب معیشت کا کنٹرول ایک چھ رکنی قومی کمیٹی کے پاس ہونا چاہیے
وزیراعظم، فیلڈ مارشل، چیف جسٹس، چیئرمین سینیٹ، آئی ایس آئی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر
یہ کمیٹی ہر ماہ فیصل مسجد میں عوامی اجلاس کرے،
جہاں ریاست کے آمدنی و خرچ کا پورا حساب قوم کے سامنے رکھا جائے۔
جو ادارہ یا وزیر اجازت کے بغیر خرچ کرے
اس کے ذمہ داروں سے قوم کے سامنے وصولی کی جائے
یہی وہ نظام ہے جو قوم کو جاگتا، حکمرانوں کو سیدھا
اور ریاست کو مضبوط کرے گا۔
“غریب کے حصے کی روٹی اشرافیہ کے دسترخوان پر!
آج ملک کے نوے فیصد وسائل پچاس ہزار افراد پر خرچ ہو رہے ہیں
یہ وہ طبقہ ہے جس کے محلات میں چراغ جلتے ہیں جبکہ
غریب کے گھر میں چولہا ٹھنڈا رہتا ہے۔
یہ وہ بدقسمت ملک ہے جہاں قرضہ عوام کے نام پر لیا جاتا ہے مگر عیاشی اشرافیہ کے نام پر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر مغل نے واضح کہا کہ اگر ایوبی دوئم بھی اس انقلاب کا ساتھ نہیں دیتے
تو پھر قوم خود فیصلہ کرے گی
کیونکہ اب بھوکے بچے، بیمار مائیں، اور مایوس نوجوان مزید دھوکہ برداشت نہیں کریں گے۔
یہ تحریر قوم کے لیے ایک آئینہ ہے
ایک چیخ، ایک انتباہ، ایک پکار
اگر اب بھی اس نظامِ عیاشی پر چپ سادھ لی گئی تو
پاکستان کے غریب کی خاموشی ایک دن زلزلہ بن جائے گی۔
“اب فیصلہ کرنا ہوگا — کہ ملک اشرافیہ کے لیے ہے یا عوام کے لیے؟”
تحریر: ڈاکٹر ابراہیم مغل
چیف پیٹرن – ورلڈ کالمسٹ کلب
ادارتی پیشکش: نیوز سینٹرز پاکستان
تجزیہ و تحریر: تہلکہ خیز، سبق آموز، عوامی بیداری پر مبنی خصوصی کالم
