Friday, December 5, 2025
No menu items!
HomeCountry newsFAZLUR REHMAN THUNDERS IN PARLIAMENT, QUESTIONS POWER STRUCTURE AND INSTITUTIONAL EXTENSIONS IN...

FAZLUR REHMAN THUNDERS IN PARLIAMENT, QUESTIONS POWER STRUCTURE AND INSTITUTIONAL EXTENSIONS IN STATE SYSTEM

اسلام آباد – نیوز سینٹرز پاکستان (نفیس بھٹہ)
پارلیمنٹ کے ایوان میں ایک بار پھر وہ ہوا جسے بہت سے سیاسی مبصرین ’’طاقت کے مراکز کے خلاف فکری بغاوت‘‘ قرار دے رہے ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ایک شعلہ بیان اور غیر معمولی جرات مندانہ خطاب میں ریاستی اداروں کی پالیسیوں، این ایف سی ایوارڈ کے بحران، پولیس کے احتجاج، اور ’’ایکسٹینشن کلچر‘‘ کے خلاف ایسی باتیں کر ڈالیں جو ایوان کے ہر کونے میں بازگشت بن گئیں۔


🔹 ریاستی رٹ یا ریاستی کمزوری؟ — مولانا کا کڑوا سوال

مولانا نے کہا کہ ملک کے کئی علاقے — دیر، دیرہ اسماعیل خان، بنوں اور وزیرستان کے حصے — عملاً ریاستی اختیار سے خالی ہو چکے ہیں۔
ان کے مطابق وہاں پولیس، انتظامیہ اور قانون کی عملداری کمزور پڑ گئی ہے اور غیر ریاستی عناصر عوامی طاقت کے متبادل بن چکے ہیں۔

“اگر ریاست وہاں موجود نہیں تو بتایا جائے — وہ علاقے کس کے قبضے میں ہیں؟”

یہ سوال ایوان کے اندر گونجا اور باہر ملک کی کمزور گورننس کا نوحہ بن گیا۔


🔹 پولیس کا دھرنا — وہ محافظ جو خود تحفظ مانگ رہے ہیں

مولانا نے دیر، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس کے دھرنوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ لمحہ قوم کے لیے شرمندگی ہے کہ محافظ انصاف کے لیے خود سڑکوں پر بیٹھے ہیں۔
انہوں نے حکومت کو تنبیہ کی:

“ریاست کے محافظ اگر مایوس ہو گئے تو ریاست کا دفاع کون کرے گا؟”

تجزیاتی طور پر دیکھا جائے تو یہ احتجاج اس ادارہ جاتی تھکن کا مظہر ہے جو نچلے درجے کے سرکاری نظام کو جمود میں بدل رہی ہے۔


🔹 این ایف سی ایوارڈ — وفاق کے مستقبل پر سوالیہ نشان

مولانا فضل الرحمان نے حکومت کو خبردار کیا کہ نئے این ایف سی فارمولے میں آبادی کے تناسب کو کم کرنا اور دیگر تکنیکی عوامل کی بنیاد پر حصہ تقسیم کرنا وفاق کے آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے۔

“یہ محض بجٹ فارمولا نہیں، یہ وفاقی انصاف کا امتحان ہے۔”

انہوں نے واضح کیا کہ اگر چھوٹے صوبے احساسِ محرومی میں دھکیلے گئے، تو یہ ریاست کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔


🔹 ادارہ جاتی ایکسٹینشن پر طنز — ’’پھر پارلیمنٹ کو بھی بڑھا دیں‘‘

ایوان میں بیٹھے وزراء کے چہروں کا رنگ اس وقت بدل گیا جب مولانا نے ’’ایکسٹینشن کلچر‘‘ پر نشتر چلاتے ہوئے کہا:

“اگر اداروں کو ایکسٹینشن دینا اتنا ضروری ہے تو پھر پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن دے دیں، تاکہ عوام کی آواز بھی مسلسل سنائی دیتی رہے!”

یہ جملہ صرف طنز نہیں تھا، بلکہ ریاستی نظام میں اختیار کی غیر مساوی تقسیم پر گہرا سوال تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اداروں کا احترام تب ہی باقی رہتا ہے جب اصول افراد پر غالب ہوں۔


🔹 عدلیہ اور انصاف کا نظام — تاخیر یا تذلیل؟

مولانا نے عدلیہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ انصاف کی تاخیر انصاف کی تذلیل بن چکی ہے۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ لاکھوں مقدمات زیرِ التواء ہیں اور عام شہری کا بھروسہ عدالتوں سے ختم ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق اب وقت آگیا ہے کہ عدالتی اصلاحات ایوان کی اولین ترجیح بنیں، ورنہ نظام خود اپنے بوجھ سے گر جائے گا۔


🔹 سعودی وفد کے سامنے معذرت — سیاست نہیں، وقار کی بات

ایوان میں شور شرابے کے دوران سعودی وفد کی موجودگی پر مولانا فضل الرحمان نے قوم کی طرف سے معذرت پیش کی اور کہا:

“سعودی عرب سے ہمارے تعلقات محض سیاسی نہیں، یہ امتِ مسلمہ کے روحانی مرکز سے وابستگی کا رشتہ ہے۔”

یہ جملہ سفارتی لحاظ سے انتہائی شائستہ مگر معنی خیز پیغام تھا — کہ سیاست وقتی ہوتی ہے، مگر وقار دائمی۔


🔹 تجزیاتی مطالعہ — مولانا کا بیانیہ ’’اپوزیشن‘‘ سے بڑھ کر ’’اصلاحاتی مہم‘‘

یہ خطاب محض ایک اپوزیشن رہنما کی تقریر نہیں بلکہ ریاستی ڈھانچے کی اصلاح کا منشور دکھائی دیتا ہے۔
مولانا نے ان سوالات کو زبان دی جن پر ایوان کی خاموشی برسوں سے پردہ ڈالے ہوئے تھی:

کیا ادارے عوام کے تابع ہیں یا عوام اداروں کے؟

کیا انصاف طبقاتی بنیاد پر بٹ چکا ہے؟

اور کیا ’’ایکسٹینشن‘‘ نے نظام کو شفافیت سے محروم کر دیا ہے؟

انوسٹی گیٹو شواہد کے مطابق، مولانا کے نکات پارلیمنٹ کے اندر اور طاقت کے پسِ پردہ حلقوں میں زیرِ بحث ہیں۔


🔹 نتیجہ — ایک فکری زلزلہ، ایک قومی آئینہ

اسلام آباد کے سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمان کا یہ خطاب ملکی ادارہ جاتی نظم پر فکری زلزلہ ہے۔
انہوں نے ایکسٹینشن، اختیارات کی مرکزیت، اور وفاقی انصاف پر ایسے الفاظ بولے جو ایوان میں گونجتے رہیں گے۔

🟢 ان کا پیغام واضح تھا

“ریاست اس وقت مضبوط ہوگی جب انصاف برابری سے ملے، اختیارات شفاف ہوں، اور پارلیمنٹ کو اس کا اصل مقام دیا جائے۔”


اسلام آباد نیوز ڈیسک — نفیس بھٹہ
“ہر خبر کا رخ سچ کی جانب”
نیوز سینٹرز پاکستان

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments