تحریر وتحقیق ڈاکٹر ملک نفیس بھٹہ
یہ صرف ایک خط نہیں — یہ آئین کی دیوار پر دستک ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے وہ لکھ دیا جو برسوں سے ہر باضمیر جج کے دل میں دبا ہوا تھا۔
عنوان ہے “فیصلہ کن لمحہ” — اور یہ لمحہ واقعی فیصلہ کن ہے، کیونکہ اب عدالتوں کے اندر چھپے سوال باہر آ چکے ہیں۔
عدلیہ کا ضمیر جاگ اٹھا ہے
جسٹس اطہر من اللہ کے خط نے وہ آئینہ سامنے رکھ دیا جس میں سب کے چہرے ننگے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انصاف کی کرسی صرف طاقت کا کھیل نہیں، یہ قوم کی امیدوں کی چھت ہے —
اور اگر وہ چھت ٹوٹ جائے، تو پورا نظام ملبے تلے دب جاتا ہے۔
یہ الفاظ نرم نہیں، جلتے ہوئے ہیں —
کیونکہ اُنہوں نے سچ کہا کہ “ہم نے خاموش رہ کر اپنی عدالتوں کی روح زخمی کی۔”
یہ وہ جملہ ہے جو پورے نظام کے منہ پر طمانچہ ہے۔
اندرونی کمزوریاں، بیرونی دباؤ اور ضمیر کا سوال
جسٹس اطہر من اللہ نے بین السطور اعتراف کیا کہ بیرونی دباؤ اور اندرونی کمزوریاں عدلیہ کو کمزور کر رہی ہیں۔
یہ وہ انکشاف ہے جو عوام کو نہیں، خود ججز کو آئینہ دکھاتا ہے۔
ان کا پیغام واضح ہے: اگر عدلیہ نے اب بھی خاموشی اختیار کی،
تو تاریخ فیصلہ کرے گی کہ “انصاف کے محافظ خود انصاف سے غافل تھے۔”
ایک خط نہیں، ایک انقلاب کی چنگاری
یہ خط دراصل اُن تمام ججز، وکلا اور شہریوں کے لیے ایک پکار ہے
جو سچائی کو دبا کر “احتیاط” کے خول میں زندہ ہیں۔
اطہر من اللہ نے کہا کہ “عدالت کے فیصلے بند کمروں میں نہیں، عوامی اعتماد سے لکھے جاتے ہیں” —
یہ جملہ پورے عدالتی ڈھانچے کے لیے زلزلہ ہے۔
قوم کے لیے پیغام: سچ لکھنے کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے
یہ خط ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر عدالتیں خود احتساب سے انکار کریں،
تو قومیں سڑکوں پر انصاف ڈھونڈنے لگتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے تاریخ کے اس نازک موڑ پر جو قدم اٹھایا ہے،
وہ بتاتا ہے کہ قلم کا ایک وار بندوقوں سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔
آخری پیغام: فیصلہ کن لمحہ یہی ہے
قوموں کی تقدیر ہمیشہ ایسے ہی “فیصلہ کن لمحوں” میں لکھی جاتی ہے۔
آج اگر عدلیہ نے سچ کا ساتھ دیا تو تاریخ فخر کرے گی،
ورنہ آنے والی نسلیں پوچھیں گی —
کہ جب انصاف بک رہا تھا، تمہاری خاموشی کیوں چیخ رہی تھی؟
