Friday, December 5, 2025
No menu items!
HomeColumnistCHILD PROTECTION FAILURE IN PUNJAB AS STATE INSTITUTIONS REMAIN SILENT ON RISING...

CHILD PROTECTION FAILURE IN PUNJAB AS STATE INSTITUTIONS REMAIN SILENT ON RISING ABUSE CASES

ڈاکٹر ملک نفیس بھٹہ کالم نگار

پنجاب میں بچوں کے خلاف درندگی پر مبنی جرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک مسلسل سانحہ ہیں جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے اجتماعی ضمیر پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ صرف چھ ماہ میں چار ہزار ایک سو پچاس معصوم بچوں کا ظلم کا شکار ہونا کسی حادثے یا اتفاق کی بات نہیں بلکہ ایک ایسے نظام کی گواہی ہے جس میں کمزور سب سے زیادہ غیر محفوظ رہتا ہے۔ اس صورتحال میں سب سے اہم سوال یہی بنتا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو، پنجاب پولیس، سی سی ڈی اور دیگر حکومتی ادارے خاموش تماشائی کیوں بنے بیٹھے ہیں۔ اس سوال کا جواب کسی ایک شخص یا ایک حکومت میں تلاش کرنا آسان تو ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ خاموشی برسوں سے ریاستی مشینری کے اندر جمی ہوئی ایک دیرینہ کمزوری ہے جو مسلسل جاری ہے۔

چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے قیام کا مقصد اگرچہ بچوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا مگر عملاً یہ ادارہ اپنے محدود اختیارات اور وسائل کی کمی کے باعث زیادہ تر ریسکیو اور شیلٹر ہوم کی سرگرمیوں تک محدود رہ جاتا ہے۔ نہ اس کے پاس تفتیشی یا قانونی کارروائی کا اختیار ہے، نہ اضلاع میں اتنا عملہ موجود ہے کہ بروقت کارروائی کی جا سکے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ جن جرائم کو روکنے اور مجرموں کو انجام تک پہنچانے کے لیے مضبوط قانونی ادارتی طاقت درکار ہوتی ہے وہ طاقت بیورو کے پاس ہے ہی نہیں۔ اس لیے یہ کہنے میں کوئی ہرج نہیں کہ ادارے کی خاموشی مرضی سے زیادہ مجبوری ہے۔

ادھر پنجاب پولیس اپنی جگہ ایک الگ حقیقت رکھتی ہے۔ پولیس سے انصاف کی فراہمی کی توقع بجا ہے مگر اس فورس کو سیاسی دباؤ، گواہوں کے عدم تحفظ، تفتیشی کمزوری، جدید آلات کی کمی اور ہزاروں زیرِ التوا مقدمات کا سامنا رہتا ہے۔ ایسے ماحول میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم جیسے حساس کیس اکثر مکمل ثبوت نہ ہونے یا مقامی مصالحتی دباؤ کے باعث کمزور پڑ جاتے ہیں۔ پولیس چاہے بھی تو اکثر وہ نتائج نہیں دے پاتی جن کی عوام اس سے توقع رکھتی ہے۔ یوں پولیس کی خاموشی غفلت سے زیادہ ایک مسلسل دباؤ اور عملی رکاوٹوں کا نتیجہ ہے۔

سی سی ڈی اور دیگر ریکارڈ رکھنے والے اداروں کی حالت بھی مختلف نہیں۔ ان کے پاس ڈیٹا موجود ہے، رپورٹس تیار ہوتی ہیں، تجزیے بھی کیے جاتے ہیں، مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان رپورٹس پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اعداد و شمار فائلوں میں دب کر رہ جاتے ہیں اور نچلی سطح کے اداروں تک عملی ہدایات پہنچتی ہی نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ریاستی مشینری جرم ہونے کے بعد حرکت میں آتی ہے، پہلے نہیں۔ بچوں کے تحفظ کے لیے پیشگی اقدامات کا مکمل فقدان صورتحال کو مزید سنگین بنا دیتا ہے۔

اداروں کی یہ اجتماعی خاموشی دراصل اس بڑے مسئلے کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ذمہ داری تو سب کی ہے مگر جوابدہی کسی کی نہیں۔ پولیس پراسیکیوشن کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے، پراسیکیوشن ثبوتوں کی کمی کی بات کرتا ہے، عدالتیں گواہوں کی غیر حاضری کا شکوہ کرتی ہیں، چائلڈ پروٹیکشن بیورو اختیار نہ ہونے کی بات کرتا ہے اور حکومت اداروں کی خود مختاری کا حوالہ دے دیتی ہے۔ یوں بچہ اس پورے نظام کی کشمکش میں کہیں گم ہو جاتا ہے اور ظلم کا سلسلہ برقرار رہتا ہے۔

ایسے میں حکومتی سطح پر بلند بانگ دعوے بالخصوص وزیراعلیٰ مریم نواز شریف کا یہ کہنا کہ “عورتیں اور بچے ہماری ریڈ لائن ہیں”—بھی اسی وقت معنی رکھتے ہیں جب ان دعووں کے پیچھے عملی نظام موجود ہو۔ مسائل بیانات سے نہیں بلکہ ادارہ جاتی اصلاحات، تیز رفتار عدالتی کارروائی، مضبوط تفتیش، جدید تربیت اور سخت جوابدہی سے حل ہوتے ہیں۔ اگر جرم کرنے والا جان لے کہ اس کے ساتھ اگلے 24 گھنٹے میں کیا ہونے والا ہے تو جرائم کی شرح خود بخود کم ہونے لگتی ہے۔

اصل مسئلہ اداروں کی غیر فعالیت کا نہیں بلکہ غلط ترجیحات کا ہے۔ قانون سخت ہے مگر اس کے اطلاق میں نرمی ہے۔ پالیسی موجود ہے مگر عمل کمزور ہے۔ ریاست حساس ہے مگر نظام سست ہے۔ جب تک اس سست رفتاری کو چیلنج نہیں کیا جاتا، جب تک اداروں کو ایک صفحے پر لا کر عملی جوابدہی کا مؤثر نظام نہیں بنایا جاتا، تب تک پنجاب کے بچوں کا تحفظ ایک خواب ہی رہے گا۔

آخر میں سچ یہی ہے کہ بچے کسی ایک حکومت کے نہیں، پوری ریاست کے ہوتے ہیں۔ ریاست مضبوط ہو تو بچے محفوظ ہوتے ہیں، ریاست خاموش ہو تو بچے تنہا رہ جاتے ہیں۔ پنجاب کے بچے آج تنہا کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ریاست کے ادارے مسلسل خاموش ہیں اور یہ خاموشی سب کچھ کہہ رہی ہے۔

PRIME NEWS AGENCY CITY CRIME NEWS INTERNATIONAL

NEWS CENTERS PK

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments