HUMANITY UNDER RUBBLE
غزہ کی مٹی پر انسانیت کے زخم تازہ ہیں۔ سیز فائر کے بعد ابھرنے والے مناظر نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا ہے — تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے لاشیں، ادویات کی کمی، معصوم بچوں کی بھوک اور زخمی عورتوں کی چیخیں اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ “امن” صرف الفاظ کا کھیل رہ گیا ہے۔
ISRAELI ATROCITIES AND WAR CRIMES
اسرائیل کی جانب سے عارضی معاہدے کے باوجود عام شہریوں پر بمباری، اسپتالوں پر حملے اور امداد کی راہ میں رکاوٹیں انسانی حقوق کی پامالی ہیں اور عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی بھی ہیں۔ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی عدالتِ انصاف (ICJ) پہلے ہی ان کارروائیوں کو “ممکنہ نسل کشی” کے زمرے میں شمار کر چکے ہیں، مگر دنیا کی بڑی طاقتیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔
PAKISTAN’S STAND — STRONG WORDS, LIMITED ACTION
پاکستان نے فلسطینی عوام کی غیر متزلزل حمایت کا اعلان کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کے متعدد بیانات میں القدس شریف کو دارالحکومت ماننے اور فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ دہرایا گیا۔ پاکستان نے اسرائیلی جارحیت کو “انسانیت کے خلاف جرم” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا کردار صرف بیانات تک محدود رہے گا؟
کیا ہم نے اقوامِ متحدہ یا بین الاقوامی عدالت میں کوئی باضابطہ اقدام کیا؟
کیا پاکستان نے فلسطینی متاثرین کے لیے کوئی مستقل امدادی میکانزم، فنڈ یا قانونی معاونت فراہم کی؟
اگر اس کا جواب خالی ہے تو یہ ہماری خارجہ پالیسی کے کمزور پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔ سفارت کاری صرف اخلاقی بیان نہیں، عملی جدوجہد بھی مانگتی ہے۔
GLOBAL SILENCE — THE DEATH OF CONSCIENCE
اسرائیلی مظالم میں اسپتال، اسکول، اور اقوامِ متحدہ کے ریلیف کیمپس محفوظ نہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں — Amnesty International اور Human Rights Watch — نے بارہا اس بات کی تصدیق کی کہ اسرائیلی کارروائیوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا، خوراک اور ادویات روکی گئیں، اور شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔
یہ مظالم صرف جنگی جرائم نہیں بلکہ جمعی سزا (Collective Punishment) کے مترادف ہیں، جو کسی بھی مہذب دنیا میں ناقابلِ قبول ہیں۔
PAKISTAN’S WAY FORWARD — FROM WORDS TO ACTION
پاکستان اگر فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا ہے تو اسے اپنے مؤقف کو الفاظ سے آگے بڑھانا ہوگا:
- بین الاقوامی قانونی راستہ: پاکستان ICJ اور ICC میں شواہد جمع کرائے اور OIC کے پلیٹ فارم سے اجتماعی قانونی چارہ جوئی کرے۔
- انسانی امداد: فوری طور پر حکومتی سرپرستی میں شفاف امدادی فنڈ تشکیل دیا جائے، جس سے براہِ راست غزہ کے متاثرین تک مدد پہنچے۔
- سفارتی دباؤ: مغربی ممالک، خصوصاً یورپی یونین اور امریکہ سے مطالبہ کیا جائے کہ اسرائیل کی امداد انسانی حقوق کی شرائط سے مشروط ہو۔
- عوامی سفارت کاری: پاکستان عالمی میڈیا پر مؤثر انداز میں مؤقف پیش کرے تاکہ دنیا جان سکے کہ فلسطینیوں کی جدوجہد دہشت گردی نہیں بلکہ آزادی کی جنگ ہے۔
MORAL TEST — HISTORY WILL REMEMBER OUR CHOICE
اخلاقی امتحان اور ریاستی ذمہ داری، یہ لمحہ پاکستان کے لیے صرف سفارتی نہیں بلکہ اخلاقی امتحان بھی ہے۔ ہم نے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی تھی جو ظلم کے خلاف بولنے اور مظلوم کے ساتھ کھڑا ہونے کے عزم پر قائم تھی۔
آج اگر ہم غزہ کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی چیخوں پر خاموش رہیں، تو تاریخ ہمیں بخشے گی نہیں۔ غزہ کی سرزمین پر بہتا ہوا خون صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ انسانیت کے ضمیر پر بہتا ہوا خون ہے۔
وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اپنے مؤقف کو محض بیانات سے نکال کر عملی میدان میں لے آئے۔ کیونکہ اگر دنیا کے طاقتور ملک خاموش رہیں تو کم از کم پاکستان کو وہ کردار ادا کرنا ہوگا جو اس کی اسلامی، انسانی اور تاریخی ذمہ داری بنتی ہے۔
“جو ظلم پر خاموش رہا، وہ ظالم کے ساتھ کھڑا ہوا۔ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے — وہ کہاں کھڑا ہے۔”
