ایڈیٹوریل
آج کا انسان عظیم ہے مگر لیکن خدا خدا ہے ذرا غور تو کیجیے”
نیوز سینٹرز پاکستان
دنیا کی تیز رفتار دوڑ میں آج کا انسان واقعی کامیابی کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔
سائنس، ٹیکنالوجی، طب، سیاست، معیشت اور مواصلات — ہر میدان میں انسانی ذہانت نے حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیا ہے۔
انسان نے سمندر کی گہرائیوں میں اتر کر پوشیدہ راز کھول دیے،
خلا کے پردے چاک کر کے نئے سیارے دریافت کر لیے،
اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے اپنی تخلیقی حدود کو وسعت دے دی۔
یہ سب کچھ بلا شبہ عظمتِ انسانی کی علامت ہے۔ مگر اسی عظمت کے شور میں ایک خاموش مگر فیصلہ کن صدا گم ہو گئی ہے خدا کی یاد، اُس کی بڑائی اور اُس کے وجود کا احساس۔
انسان کی عظمت قابلِ فخر مگر محدود آج کا انسان اپنی ذہانت اور اختراع کے بل بوتے پر دنیا کو بدل رہا ہے۔ اُس نے ناممکن کو ممکن بنا دیا، زندگی کو سہولتوں سے بھر دیا، اور اپنی قوتِ ارادی سے کائنات کو اپنی خدمت میں لانے کا ہنر سیکھ لیا۔
لیکن یاد رہے یہ تمام تر کامیابیاں انسان کی ملکیت نہیں بلکہ خالق کی امانت ہیں۔ اگر انسان یہ بھول جائے کہ اُس کا ہر علم، ہر صلاحیت، اور ہر کامیابی اللہ کی عطا ہے، تو یہی ترقی اُس کے غرور کا سبب بن جاتی ہے،
اور غرور ہمیشہ زوال کا آغاز ہوتا ہے۔
خدا کی عظمت لامحدود و ابدی ، خدا وہ ذات ہے جو ہر شے کی ابتدا و انتہا ہے۔
وہ علم کا سرچشمہ، طاقت کا مرکز، اور کائنات کا واحد خالق ہے۔ انسان کی تمام تر عقل اور سائنس اُس کی تخلیق کا معمولی حصہ ہے۔ خدا نے انسان کو علم دیا تاکہ وہ زمین پر انصاف، محبت اور خیر پھیلائے، نہ کہ غرور، طاقت اور خودنمائی کی راہ پر چل پڑے۔ خدا کی عظمت کا احساس انسان کی ترقی کو معنی دیتا ہے۔ یہی احساس اُسے شکرگزاری، عاجزی، اور اعتدال کی راہ پر قائم رکھتا ہے۔
معاشرتی تناظر پاکستانی قوم کے لیے سبق پاکستان میں نوجوان نسل علم و ترقی کے میدانوں میں آگے بڑھ رہی ہے۔
لیکن یہ ترقی اس وقت پائیدار ہو گی جب اس کے ساتھ کردار، اخلاق، اور خلوص کا امتزاج موجود ہو۔
قوموں کی بنیاد صرف سائنس نہیں بلکہ روحانی شعور پر ہوتی ہے۔
اگر ہم نے خدا کو بھلا دیا تو ترقی کا یہ سفر ہمیں روحانی پستی میں لے جا سکتا ہے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے
کیا ہماری ترقی خدا کی رضا کے لیے ہے یا صرف دنیا کی داد کے لیے؟
شاعرِ شکیل آزاد کی تنبیہ ایسے ہی لمحے میں شاعرِ دل شکیل آزاد کا شعر دل پر دستک دیتا ہے مانا کہ آج کا انسان عظیم ہے مگر لیکن خدا خدا ہے، ذرا غور تو کیجیے ، یہ شعر محض الفاظ نہیں بلکہ حکمت و شعور کی صدا ہے۔یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی اصل عظمت اُس کی بندگی میں ہے،
نہ کہ خود کو خالق سمجھنے کے وہم میں۔
نتیجہ غور و فکر کی دعوت انسان اپنی تمام کامیابیوں کے باوجود اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا
جب تک وہ اپنے خالق کی عظمت کو تسلیم نہ کرے۔
ترقی تب ہی بامعنی ہوتی ہے جب اُس کے پیچھے شکر، عبادت، اور خدمتِ خلق کا جذبہ ہو۔
لہٰذا آج کا انسان واقعی عظیم ہے، مگر خدا خدا ہے ذرا غور تو کیجیے۔
یہی شعور انسان کو فخر کے اندھیروں سے نکال کر وقار کے نور میں لے آتا ہے،
اور یہی توازن انسانیت کی اصل پہچان ہے۔
✍️ اداریہ: نیوز سینٹرز پاکستان
تاریخ: 23 اکتوبر 2025
موضوع: انسانی عظمت، خالق کا ادراک، اور فکری توازن
