نظامِ ناہمواری کے تابوت پر آخری کیل!
(تحریر: ڈاکٹر ابراہیم مغل)
ہائے افسوس ایک اور علم بانٹنے والا چراغ سڑک پر بجھ گیا۔
انیسویں گریڈ کا پروفیسر
جس نے اپنی جوانی علم کی روشنی پھیلانے میں گزاری , موٹر سائیکل پر دفتر جاتے ہوئے ڈمپر کے نیچے آ کر شہید ہو گیا۔
یہ محض ایک حادثہ نہیں، بلکہ ہمارے سماجی اور انتظامی نظام پر ایک چبھتا ہوا طمانچہ ہے۔
کیونکہ یہی وہ نظام ہے
جہاں ایک 17 گریڈ کا اسسٹنٹ کمشنر دو کروڑ کی لینڈ کروزر میں چھ پولیس کمانڈوز کی حفاظت میں پیاز اور ٹماٹر کی ریڑھیاں الٹتا ہے
اور وہ 19 گریڈ کا استاد، جس کی بدولت یہی افسر تعلیمی دروازوں سے گزرا، کباڑ سے خریدی موٹر سائیکل پر موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔
یہاں علم کی کوئی قیمت نہیں، یہاں صرف طاقت کی بولی لگتی ہے۔
ایک 14 گریڈ کا ایس ایچ او کروڑوں کے بنگلوں،
اور بارہویں گریڈ کا پٹواری اربوں کے کھاتوں کا مالک بن جاتا ہے —
جبکہ استاد، جس نے قوم کے ہر دماغ کو تراشا، کرائے کے مکان میں ساری زندگی گزار دیتا ہے۔
سوال یہ نہیں کہ پروفیسر کیوں مرا —
سوال یہ ہے کہ ایسا نظام کیوں زندہ ہے؟
ایک ایسا نظام جو قلم والوں کو خاک میں ملا کر بندوق والوں کو تخت پر بٹھاتا ہے۔
جہاں انصاف محض طاقتور کے گھر کی لونڈی ہے،
جہاں حرام دولت عزت بن گئی ہے،
اور جہاں محنت کش اپنی عزتِ نفس کے ساتھ دفن کر دیا جاتا ہے۔
یہ قوم کب تک خاموش رہے گی؟
کب تک علم کی لاش پر طاقت کے نعرے لگائے جائیں گے؟
کب تک ٹیکس دینے والا دیکھتا رہے گا کہ اس کا پیسہ طاقتوروں کے بنگلوں اور کرپشن کے محلوں میں بہایا جا رہا ہے؟
اب وقت آ گیا ہے کہ غریب اور ایماندار طبقات متحد ہوں — قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے، اپنی آواز بلند کریں۔
کیونکہ سچ یہ ہے کہ
جب استاد مر جاتا ہے، تو دراصل قوم کی روح کا ایک حصہ دفن ہو جاتا ہے۔
یہ نظام اب زیادہ دیر نہیں چل سکتا —
کیونکہ جنہوں نے کتابوں سے انصاف سکھایا،
وہ اب انصاف مانگنے نکلے ہیں۔
“ہر خبر کا رخ سچ کی جانب — نیوز سینٹرز پاکستان”
