🇵🇰 استنبول کی فضاؤں میں وہ لمحہ تاریخ کا دھماکہ بن گیا،
جب سلطنتِ عثمانیہ کے بااختیار خلیفہ، سلطان عبد الحمید ثانی نے صیہونی منصوبہ سازوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچ لی۔
یہودی رہنماؤں نے خزانے کے منہ کھول دیے، سونا، چاندی اور سرمایہ پیش کیا کہ فلسطین کے کچھ حصے ان کے حوالے کر دیے جائیں تاکہ وہاں یہودی ریاست قائم کی جا سکے۔ مگر جواب آیا ،
فلسطین میرا نہیں، امت کا ہے، اور امت نے اس زمین کے ایک ایک انچ کے لیے اپنا خون بہایا ہے۔ میں اپنی سلطنت کا یہ حصہ فروخت نہیں کر سکتا
یہ الفاظ صرف ایک انکار نہیں تھے ، بلکہ امتِ مسلمہ کے مقدر کی ترجمانی تھی۔
عبد الحمید ثانی نے فرمایا کہ اگر کبھی عثمانی سلطنت زوال پذیر بھی ہو جائے، تب بھی وہ اپنے ہاتھوں سے امت کی مقدس زمین بیچنے کا جرم نہیں کریں گے۔
تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ اُس وقت کے صیہونی رہنما تھیوڈور ہرزل (Theodor Herzl) نے سلطان کے دربار تک رسائی کی پوری کوشش کی، مگر سلطان نے واضح پیغام دیا:
فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے، اسے فروخت کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
یہ وہ جملہ تھا جس نے عالمی صیہونیت کے منصوبے کی بنیادیں ہلا دیں۔ یورپی اخبارات میں بھی یہ واقعہ “The Ottoman Refusal” کے عنوان سے شہ سرخیوں میں آیا۔
آج جب فلسطین کا لہو ایک بار پھر امت کے دامن پر بکھرا ہوا ہے، سلطان عبد الحمید کے یہ الفاظ دوبارہ تاریخ کے ایوانوں میں گونج بن کر ابھرتے ہیں۔
یہ صدیوں بعد امت کو یاد دلا رہے ہیں کہ زمین صرف مٹی نہیں، یہ ایمان، قربانی اور وراثت کی علامت ہے۔
عبد الحمید ثانی کو تخت سے اتار دیا گیا، مگر ان کا اصول باقی رہا
اسلامی وقار فروخت نہیں ہوتا، چاہے سلطنتیں بکھر جائیں۔”
یہی وہ صدا ہے جو آج بھی القدس کی فضا میں گونجتی ہے، جو بتاتی ہے کہ تاریخ کے اصل فاتح وہ نہیں جو زمین جیتتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو ایمان کی سرحدوں پر پہرا دیتے ہیں۔
جڑے رہیں تازہ ترین خبروں
سچ پر مبنی تاریخی حقائق، امتِ مسلمہ کی غیرت اور سیاستِ وقت کی گہرائی جاننے کے لئے
ہر خبر کا رخ سچ کی جانب نیوز سینٹرز پاکستان
