نیوز سینٹرز پاکستان ایڈیٹوریل
انگریز کی چھوڑی ہوئی تذلیل کی نشانیاں — ہم آج بھی گلے کا ہار بنائے پھر رہے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر کی آزادی کی داستان میں اگر کسی ایک نام نے انگریز سامراج کے غرور کو چکناچور کیا تو وہ نام سلطان ٹیپو شہید کا ہے۔ انگریزوں کا وہ سب سے بڑا اور ناقابلِ تسخیر دشمن، جس نے میدانِ جنگ میں اپنی تلوار سے انگریزوں کو ایسے زخم دیے کہ وہ آج تک ان کے خوف سے کانپتے ہیں۔ لیکن افسوس انگریز نے صرف اسے قتل نہیں کیا بلکہ اس کے نام، اس کی یاد اور اس کی عظمت کو مٹانے کے لیے پورے برصغیر میں تذلیل کی منظم مہم چلائی۔
ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریز نے انتقاماً ہر ایسی چیز کو گالی میں بدل دیا جو اس کی ریاست، اس کی حکومت یا اس کے دین کی علامت تھی۔
گلی کے کتوں کو ٹیپو کہنا، صرف توہین نہیں بلکہ ایک منصوبہ بند نفسیاتی جنگ تھی، تاکہ آنے والی نسلوں کے دل سے مجاہدِ آزادی کی عزت مٹ جائے۔
ٹیپو سلطان کی ریاست میں صوبیدار ایک باوقار گورنر ہوتا تھا۔ انگریز نے اپنے فوجی نظام میں ایک لیفٹین کے ماتحت عہدے کو صوبیدار کا نام دے کر ذلت کا تاثر پیدا کیا۔
خان ساماں، جو اس وقت وزیرِ خوراک کا خطاب تھا، آج ایک باورچی کی پہچان ہے۔
خلیفہ، جو اسلام کی سب سے مقدس علامت تھی، اسے انگریز نے حجام کے ساتھ منسلک کر کے اس مقدس لفظ کی حرمت پامال کی۔
ٹیپو کے دربار میں پگڑی عزت و شرافت کی علامت تھی، انگریز نے اسی پگڑی کو نوکروں، بیروں اور دربانوں کے سر پر باندھ کر رسوائی کا نشان بنا دیا۔
اور جمعدار — جو کبھی پولیس کے بڑے افسر کا عہدہ تھا — آج صفائی والے کے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔
یہ محض الفاظ کی تبدیلی نہیں تھی، بلکہ ایک نفسیاتی غلامی کی بنیاد تھی جو آج بھی ہمارے ذہنوں میں پیوست ہے۔
ہم نے انگریز کا تسلط تو 1947ء میں ختم کر دیا، مگر اس کی رکھی ہوئی تذلیل کی عمارت آج بھی ہمارے رویوں میں کھڑی ہے۔ ہم آج بھی انہی ذلیل کردہ اصطلاحات کو فخر سے دہراتے ہیں، جیسے یہ ہماری تہذیب کا حصہ ہوں۔
یہی تو انگریز کی اصل فتح تھی — جسمانی نہیں، فکری غلامی۔
ہم آزاد تو ہوئے، مگر سوچ آج بھی غلام ہے۔
جب تک ہم انگریز کے مسلط کیے گئے الفاظ، رویوں اور اقدار سے آزادی حاصل نہیں کرتے، ہم درحقیقت آزاد نہیں۔
اب وقت ہے کہ ہم اس نفسیاتی غلامی کے طلسم کو توڑیں۔
وقت ہے کہ ہم “خان ساماں” نہیں “وزیرِ خوراک”، “جمعدار” نہیں “افسرِ صفائی”، “خلیفہ” نہیں “نائی” کہیں۔
وقت ہے کہ ہم اپنے محسنوں کے ناموں کو عزت واپس دیں — اور ٹیپو سلطان کے لہو سے لکھی گئی غیرت کی داستان کو نئے عزم کے ساتھ زندہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوز سینٹرز پاکستان — سچ کی سمت، شعور کی بنیاد۔
ہر خبر کا رخ سچ کی جانب
