انسان کی تخلیق کا مقصد محض زمین پر زندگی گزارنا نہیں،بلکہ اپنے خالق کو پہچاننا ہے۔ یہ پہچان عبادت سے شروع ہوتی ہے مگر علم، حکمت اور دانائی کے ذریعے اپنی معراج کو پہنچتی ہے۔
یہی وہ سفر ہے جسے صوفیاء نے “وصالِ حق” اور مفکرین نے “خودی کی تکمیل” کہا ہے۔
علم — پہچانِ خالق کا پہلا زینہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے پہلے علم الاسماء عطا کیا — یعنی اشیاء کی حقیقتوں کا علم۔
یہ علم انسان کو شعور، تجسس اور تلاشِ حقیقت کی قوت دیتا ہے۔
علم وہ روشنی ہے جو جہالت کے اندھیروں کو چیر کر انسان کو بیداری عطا کرتی ہے۔
مگر علم صرف الفاظ یا معلومات کا مجموعہ نہیں؛ یہ وہ بصیرت ہے جو انسان کو اپنی اصل پہچان تک لے جاتی ہے۔
حکمت — علم کی روح اور روشنی
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
“ومن يؤت الحكمة فقد أوتي خيراً كثيراً”
(جسے حکمت عطا کی گئی، اسے بڑی نعمت عطا کی گئی)
حکمت وہ جوہر ہے جو علم کو توازن اور فہم بخشتا ہے۔
یہ انسان کو یہ شعور دیتی ہے کہ کہاں علم کو استعمال کرنا ہے، کہاں خاموشی بہتر ہے، اور کہاں عمل لازم۔
علم اگر راستہ دکھاتا ہے تو حکمت منزل تک پہنچاتی ہے۔
دانائی — بصیرتِ روحانی اور قربِ الٰہی
جب علم اور حکمت ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں تو وہاں دانائی جنم لیتی ہے۔
دانائی وہ روشنی ہے جو عقل سے اوپر، دل کے اندر اترتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کو اپنے اندر خدا کی جھلک محسوس ہونے لگتی ہے۔
دانائی انسان کو نرم خو، بردبار اور بامقصد بنا دیتی ہے۔
معراجِ خداوندی — انسان کی تکمیل
جب علم فہم بن جائے، حکمت کردار بن جائے، اور دانائی وجدان بن جائے —
تب انسان خدا کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔
یہی حقیقی معراجِ خداوندی ہے، جہاں انسان اپنی مخلوقی حیثیت کے باوجود خالق کی پہچان میں فنا ہو جاتا ہے۔
دنیا کی حقیقی ترقی نہ دولت میں ہے، نہ طاقت میں، بلکہ علم، حکمت اور دانائی میں ہے۔
جو انسان ان تینوں اوصاف کو حاصل کر لیتا ہے، وہ نہ صرف اپنی روحانی بلندی کو پاتا ہے بلکہ معاشرے کے لیے روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔
علم انسان کو زندہ رکھتا ہے، حکمت اسے سمت دیتی ہے، اور دانائی اسے خدا کے قریب کر دیتی ہے — یہی ہے معراجِ خداوندی۔
