انسان کی انسان سے غلامی — ایک فکری المیہ
(نیوز سینٹرز پاکستان، خصوصی اداریہ)
دنیا کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ انسان آزادی کے ساتھ پیدا ہوا، مگر غلامی کے جال میں پھنسا دیا گیا۔
اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا، مگر انسان نے انسان کو غلام بنا لیا۔ یہ غلامی محض جسم کی نہیں بلکہ سوچ، خوف، ضرورت اور خواہش کی بھی ہے۔
آج کا انسان خود کو آزاد سمجھتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ضرورتوں اور مفادات کا غلام ہے۔
یہ وہ غلامی ہے جو قید خانے کے سلاخوں میں نہیں بلکہ دل کے اندر پنپتی ہے۔
نوکری، عہدہ، تنخواہ، شہرت، بینک بیلنس — یہی اس کے نئے آقا ہیں۔
یہ وہ زنجیریں ہیں جو نظر نہیں آتیں، مگر انسان کو جھکنے پر مجبور کرتی ہیں۔
دنیا کے ہر معاشی نظام — چاہے وہ سرمایہ داری ہو یا اشتراکیت — آزادی کا نعرہ تو لگاتا ہے، مگر اس نعرے کے بدلے انسان کی روح گروی رکھ لیتا ہے۔
سرمایہ دار کے ہاتھ میں دولت، مزدور کے ہاتھ میں ضرورت — اور یہی وہ مقام ہے جہاں غلامی کا نیا چہرہ جنم لیتا ہے۔
مگر قرآن، اس غلامی کے تانے بانے کو کاٹ دیتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ آزادی باہر سے نہیں آتی، آزادی دل کے اندر پیدا ہوتی ہے۔
جب انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ
“میں مالک نہیں، میں امانت دار ہوں”
تب وہ انسانوں کی غلامی سے نکل آتا ہے۔
قرآن اعلان کرتا ہے:
وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ
“تمہارا رزق آسمان میں ہے، اور وہ بھی جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے”
(الذاریات: 22)
یعنی رزق زمین والوں کے ہاتھ میں نہیں۔ اگر رزق انسان کے اختیار میں ہوتا تو طاقتور، کمزوروں کو بھوکا مار دیتے۔
ایک اور مقام پر قرآن کہتا ہے:
نَحۡنُ نَرۡزُقُكُمۡ وَإِيَّاهُمۡ
“ہم تمہیں اور تمہارے بچوں کو رزق دیتے ہیں”
(الانعام: 151)
یہ ایک ایسا جملہ ہے جو خوف کے اس ریشے کو توڑ دیتا ہے جس پر انسان کی تمام غلامیاں قائم تھیں۔
جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے، تو وہ کسی بااثر شخص کے سامنے نہیں جھکتا، کسی دفتر کے عہدے دار سے نہیں ڈرتا، اور نوکری کو زندگی نہیں سمجھتا۔
یہی لمحہ قرآنی انقلاب کا آغاز ہے — جب انسان سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے، اس کی ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہو جاتی ہے، اور وہ جان لیتا ہے کہ عزت انسان نہیں دیتا، اللہ دیتا ہے۔
قرآن نے انسان کو آزاد کیسے کیا؟
اس نے ملکیت کا وہ تصور توڑ دیا جو غلامی کی جڑ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ
“جو مال اللہ نے تمہیں دیا ہے، اس میں سے دو”
(النساء: 5)
یہ آیت اعلان کرتی ہے کہ مالک تم نہیں، مالک اللہ ہے۔
انسان صرف امانت دار ہے۔ اور جب انسان یہ مان لیتا ہے، تو وہ دوسروں پر ملکیت، اختیار اور تسلط کا دعویٰ ختم کر دیتا ہے۔
لہٰذا، ضرورت تک مال انسان کا حق ہے، اور ضرورت سے زائد اللہ کی امانت۔
یہی وہ شعور ہے جو انسان کو انسان کی غلامی سے آزاد کرتا ہے —
اور یہی آزادی قرآن کا اصل انقلاب ہے۔
ملکی و غیر ملکی تجزیاتی تازہ ترین خبروں کے لئے جڑے رہیں —
ہر خبر کا رخ سچ کی جانب — نیوز سینٹرز پاکستان 🕊️
