دنیا کی ہر چیز انسان کی خدمت میں ہے، اور اگر کوئی انسان کو تکلیف دے رہا ہے تو یہ تکلیف خود انسان کی وجہ سے ہے۔ یہی حقیقت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے اعمال، رویے اور اخلاق ہی معاشرے میں سکون یا درد پیدا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:
“اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ”
یعنی نبی ﷺ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔ یہ ایک رہنمائی ہے ہر انسان کے لیے کہ حقیقی عظمت صرف نیک اخلاق اور ایمان میں ہے۔
قیامت کے دن کی حقیقت بھی ہمیں خبردار کرتی ہے:
“وَ یَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ یُبْلِسُ الْمُجْرِمُوْنَ”
جب قیامت قائم ہوگی تو مجرم لوگ مایوس ہو جائیں گے۔ دنیاوی طاقتیں اور ظاہری کامیابیاں وقتی ہیں، اصل کامیابی آخرت کی راہ میں ہے۔
اور سب سے بڑھ کر، نبی ﷺ کی سنت پر عمل اور ان پر درود و سلام بھی ہماری زندگی کا حصہ ہونا چاہیے:
“اے اللہ! ہمارے آنکھوں کی ٹھنڈک، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج، اور ہمیں اُن کے گروہ میں شامل فرما، اور ہمیں اُن کی شفاعت کرنے والوں میں سے بنا، اور ہمیں اُن کی سُنت پر زندہ رکھ، اور اُن کے دین پر ہمیں موت دے، اور ہمیں اُن کے حوض (کوثر) پر پہنچا، اے زندہ و قائم رہنے والے!
اے اللہ! ہمارے نبی محمد اور اُن کی آل اور صحابہ کرام پر درود، سلام اور برکتیں نازل فرما۔”
یہ دعا اور یاد ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ زندگی کا اصل مقصد نیک کردار، سنت کی پیروی اور نبی ﷺ کی محبت میں جینا ہے۔ جو شخص یہ راستہ اپناتا ہے، وہ دنیا کی عارضی مشکلات اور آخرت کے امتحانات دونوں میں کامیاب رہتا ہے۔
