Friday, December 5, 2025
No menu items!
HomeEDITORIALISRAELI TORTURE CELLS EXPOSED— HORRIFYING TRUTH OF PALESTINIAN PRISONERS UNVEILED

ISRAELI TORTURE CELLS EXPOSED— HORRIFYING TRUTH OF PALESTINIAN PRISONERS UNVEILED


بین الاقوامی تحقیقاتی فیچر | نیوز سینٹرز پاکستان
تحریر و تحقیق: ڈاکٹر ملک نفیس بھٹہ


سفاکیت کی وہ دیواریں جو چیخیں بھی نگل جاتی ہیں

دنیا کی آنکھیں بند ہیں، مگر ان جیلوں کی دیواروں پر ہر چیخ، ہر آہ، اور ہر سسکی لکھا ثبوت ہے کہ ظلم آج بھی زندہ ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مظالم کی حالیہ رپورٹ نے انسانیت کے تابوت پر آخری کیل ٹھونک دی ہے۔

تحقیقات کے مطابق، اسرائیلی فورسز کی تحویل میں دو ہزار سے زائد فلسطینی قیدی ایسے ہیں جنہیں عدالتی کارروائی کے بغیر برسوں سے قید رکھا گیا ہے۔ ان میں نابالغ بچے، خواتین اور زخمی مجاہدین بھی شامل ہیں۔


تشدد کے سائے میں قید زندگی

ذرائع نے انکشاف کیا کہ قیدیوں کو ’’تفتیش‘‘ کے نام پر الیکٹرک شاک، برہنہ تلاشی، کھانے سے محرومی، نیند نہ لینے کی سزا، اور نفسیاتی اذیت دی جاتی ہے۔
ایک سابق قیدی
نے بتایا:

“ہمیں کھانے کے بجائے مٹی اور تھوک چٹایا جاتا تھا… پانی مانگنے پر لاتیں پڑتی تھیں۔”

یہ وہ جملے ہیں جو صرف جسم نہیں بلکہ روح کو بھی زخمی کر دیتے ہیں۔


بین الاقوامی اداروں کی خاموشی… جرم سے کم نہیں

ہیومن رائٹس واچ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، اور ریڈ کراس نے اعتراف کیا کہ انہیں ان جیلوں تک مکمل رسائی نہیں دی جاتی۔
انسانی حقوق کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’یہ رویہ نہ صرف جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے بلکہ عالمی ضمیر کی توہین بھی ہے۔‘‘
اقوام متحدہ کے نمائندوں نے اسرائیلی حکومت سے وضاحت طلب کی، مگر جواب
صرف خاموشی اور انکار کی صورت میں ملا۔


ماؤں کے آنسو، قوم کی غیرت

غزہ کی گلیوں میں جب کسی ماں کو اپنے بیٹے کی تصویر ہاتھ میں لیے روتے دیکھا جاتا ہے تو لگتا ہے جیسے انسانیت خود قید میں ہے۔
ایک فلسطینی خاتون نے بین الاقوامی میڈیا کو بتایا:

“میرا بیٹا پندرہ سال کا تھا، صرف پتھر پھینکنے پر اُسے دہشتگرد کہہ کر جیل میں ڈال دیا گیا۔ اب پانچ سال سے اس کی آواز نہیں سنی…”

یہ بیانیہ صرف ایک ماں کا نہیں، بلکہ پوری قوم کے دکھ کا مرثیہ ہے۔


سبق آموز حقیقت

یہ مظالم یاد دلاتے ہیں کہ ظلم جب طاقت کا لباس پہن لیتا ہے تو انصاف کا جنازہ نکلتا ہے۔
فلسطین کے قیدی ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ قیدِ جسمانی سے بڑی قید ضمیر کی ہے۔
جو قومیں مظلوموں کی آہوں پر خاموش رہتی ہیں، تاریخ ان کے چہروں پر ہمیشہ شرمندگی کی دھول لکھ دیتی ہے۔


انسانیت کے لئے لمحۂ فکریہ

یہ فیچر صرف رپورٹ نہیں، ایک پکار ہے
انسانیت کے نام، ضمیر کے نام، اور ان قیدیوں کے نام جو اپنی سلاخوں سے باہر آنے سے پہلے دنیا کو جگانا چاہتے ہیں۔


ہر خبر کا رخ سچ کی جانب — نیوز سینٹرز پاکستان 🇵🇰
تحریر و تحقیق: ڈاکٹر ملک نفیس بھٹہ
بین الاقوامی تجزیاتی سیریز کا حصہ: “انصاف کی قید میں انسانیت”

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Most Popular

Recent Comments