اداریہ
تحریر و تحقیق: نیوز سینٹرز پاکستان، اسلام آباد نیوز ڈیسک نفیس بھٹہ
بھارہ کہو کی گلیوں میں زہر بک رہا ہے، مگر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے دفتر میں سناٹا ہے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں، بلکہ ایک تلخ، خوفناک اور عبرتناک حقیقت ہے۔ کرنل امان اللہ روڈ سمیت بھارہ کہو کے مختلف علاقوں میں کیمیکل ملا دودھ 190 سے 240 روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔ نہ کوئی ریٹ لسٹ ہے، نہ کوئی چیکنگ، نہ کسی کو خوف ہے۔ بس کاروبار چل رہا ہے — موت کا کاروبار!
رات کے اندھیروں میں ٹینکروں کے ذریعے ہزاروں لیٹر دودھ سپلائی کیا جاتا ہے جو بدبودار، غیر معیاری اور صحت کے لیے مضر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ فوڈ اتھارٹی کے “محافظ” سب کچھ جانتے ہوئے بھی خاموش ہیں۔ شہری چیخ رہے ہیں، بچے بیمار ہو رہے ہیں، مگر چیکنگ ٹیمیں شاید خوابِ غفلت میں گم ہیں۔
یہی وہ اتھارٹی ہے جس کا مقصد عوام کو صاف اور معیاری خوراک فراہم کرنا تھا، مگر آج یہ ادارہ محض کاغذی کارروائیوں اور فرضی چھاپوں تک محدود ہو گیا ہے۔ فوڈ انسپیکشن اب صرف سوشل میڈیا کی تصویروں اور پریس ریلیزوں میں زندہ ہے، زمینی حقیقت میں نہیں۔
دوسری جانب ہوٹلوں اور تندوروں پر ناقص صفائی، مضرِ صحت کھانے، اور کم وزن نان و روٹی کی فروخت روز کا معمول بن چکی ہے۔ عوام شکایت کریں تو جواب ملتا ہے، “بس اتنا ہی چل رہا ہے صاحب!”
یہ لگتا ہے جیسے ریٹ کنٹرول کمیٹیاں، ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اور فوڈ اتھارٹی کسی خاموش مفاہمت میں ہیں۔
یہ صورتحال نہ صرف عوامی صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ ریاستی اداروں کی ساکھ کے لیے بھی زہرِ قاتل ہے۔ اگر فوڈ اتھارٹی نے اب بھی اپنی آنکھیں نہ کھولیں تو بھارہ کہو، اسلام آباد اور پنجاب بھر میں کیمیکل مافیا ایک ایسا نیٹ ورک بن جائے گا جسے ختم کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
وقت ہے کہ حکومت اور اعلیٰ افسران زمینی سطح پر فوری کارروائی کریں۔ چیکنگ ٹیموں کو رات کے اندھیروں میں بھیجا جائے، لیبارٹری ٹیسٹ فوری شائع کیے جائیں، اور جعلی دودھ مافیا کے خلاف مثالی مقدمات درج کیے جائیں۔
ورنہ کل یہی خاموشی ایک قومی المیہ بن جائے گی۔
سبق آموز پیغام
“جہاں ادارے سو جائیں، وہاں ضمیر جاگنے چاہئیں — کیونکہ زہر اب دودھ میں نہیں، نظام میں گھل چکا ہے۔”
جڑے رہیں ملکی و غیر ملکی تجزیاتی تازہ ترین خبروں کے لیے، ہر خبر کا رخ سچ کی جانب — نیوز سینٹرز پاکستان
