لاھور نیوز ڈیسک شمائلہ قریشی سے محکمہ موسمیات کے مطابق پنجاب کی فضاؤں میں موت کا دھواں پھیلنے لگی
سانس لینا دشوار، آسمان دھندلا، سورج کی کرنیں زرد راکھ میں تبدیل
ایسے میں حکومتِ پنجاب نے ہنگامی بنیادوں پر اسکولوں کے اوقات تبدیل کرنے کا بڑا فیصلہ کر کے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
محکمہ ماحولیات کے مطابق سموگ کی شدت 400 ایئر کوالٹی انڈیکس سے تجاوز کرچکی ہے
جو دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں لاہور کو سرِفہرست بنا چکی ہے۔
یہ وہ فضا ہے جہاں سانس لینا زہر پینے کے مترادف بن گیا ہے۔
ڈائریکٹر جنرل ای پی اے ڈاکٹر عمران حمید شیخ کے دستخط سے جاری کردہ حکم نامے میں واضح کیا گیا ہے کہ
“صبح کے وقت اسکولوں کی ٹریفک سموگ کے پھیلاؤ کا بنیادی سبب بن رہی ہے۔”
لہٰذا 3 نومبر سے تمام سرکاری و نجی اسکول صبح 8:45 سے پہلے نہیں کھلیں گے۔
خلاف ورزی کرنے والے اداروں پر 10 لاکھ روپے تک کے بھاری جرمانے عائد کیے جائیں گے۔
ذرائع کے مطابق حکومت نے سموگ کنٹرول پلان کے تحت متعدد خفیہ میٹنگز بھی کی ہیں جن میں صنعتی اخراج، فصلوں کی باقیات جلانے اور غیر معیاری ایندھن کے خلاف کریک ڈاؤن کی سفارش کی گئی۔
باوثوق اطلاعات کے مطابق درجنوں فیکٹریاں اور برننگ پوائنٹس کی فہرست تیار کر لی گئی ہے جن پر جلد کارروائی متوقع ہے۔
ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی حالات برقرار رہے تو
“پنجاب میں بچوں، بوڑھوں اور بیماروں کے لیے ہوا زہر بن جائے گی،”
اور دسمبر میں سموگ کی شدت مزید خطرناک سطح تک پہنچ سکتی ہے۔
اس دوران اسپتالوں میں سانس، دمہ اور آنکھوں کی بیماریوں میں تیزی سے اضافہ رپورٹ کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹرز نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ صبح کے اوقات میں غیر ضروری باہر نکلنے سے گریز کریں
ماسک، چشمے اور نیبولائزر کا استعمال عام بنائیں
کیونکہ یہ صرف موسمی دھند نہیں — یہ ماحولیاتی بحران کا الارم ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق “اگر عوام نے تعاون نہ کیا تو” جزوی لاک ڈاؤن اور اسموگ ایمرجنسی بھی نافذ کی جا سکتی ہے۔
یہ سموگ نہیں — یہ فطرت کا انتقام ہے۔
فضا چیخ رہی ہے، درخت دم گھٹنے سے مرجھا رہے ہیں،
اور انسان خود اپنے ہاتھوں سے اپنی سانسوں کو جلانے میں مصروف ہے۔
سبق آموز حقیقت
جب ہم فطرت کے اصول توڑتے ہیں، تو فطرت جواب میں ہمارا نظامِ زندگی توڑ دیتی ہے۔
ہر خبر کا رخ سچ کی جانب —
نیوز سینٹرز پاکستان
