✍️ کالم نگار: ڈاکٹر ملک نفیس بھٹہ
کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو میٹھے لگتے ہیں —
دل کو سکون دیتے ہیں
روح کو بہلا دیتے ہیں، اور انسان کو اس دھوکے میں ڈال دیتے ہیں
کہ شاید سب کچھ ٹھیک ہے۔
یہ وہ گناہ ہیں جن کے بعد ضمیر خاموش ہو جاتا ہے، اور دل پر ایسی تہہ جم جاتی ہے جس کے نیچے ندامت کی سانس بند ہو جاتی ہے۔
انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے اور فوراً اس کی پکڑ نہیں ہوتی تو وہ یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ شاید اس سے کوئی خطا ہی نہیں ہوئی۔
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ پر پردہ ڈال دیتا ہے، اس کا راز رکھ لیتا ہے، تاکہ وہ شرمندہ ہو کر لوٹ آئے۔
مگر جب وہی انسان ندامت کے بجائے گناہ کو عادت بنا لے، تو وہی گناہ میٹھا محسوس ہونے لگتا ہے۔
ایسے میٹھے گناہ انسان کو دنیاوی جنت کا دھوکہ دیتے ہیں۔
ان گناہوں کی لذت بڑھتی جاتی ہے، اور انسان سمجھتا ہے کہ وہ سکون میں ہے، حالانکہ وہ تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے۔
جب دنیا گناہوں کی وجہ سے جنت لگنے لگے تو سمجھ لیں کہ آخرت کے خسارے کا آغاز ہو چکا ہے۔
اللہ کے ذکر میں جو سکون ہے، وہ کسی گناہ کی لذت میں نہیں۔
چھوٹی چھوٹی نیکیوں میں، خلوص میں، کسی کی مسکراہٹ میں، کسی بھوکے کو کھانا دینے میں جو راحت ہے — وہ کسی “میٹھے گناہ” میں نہیں مل سکتی۔
اگر گناہ ہو بھی جائے، تو اللہ سے یقین کے ساتھ توبہ کیجیے۔
اللہ رحم کرنے والا ہے، مگر اس کی مہلت کو غفلت مت سمجھیے۔
قرآن میں فرمایا گیا:
“میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا”
(سورۃ الذاریات، آیت 56)
یہاں “انس” کا لفظ استعمال ہوا ہے — اور “انس” بننے کے لیے انسان بننا ضروری ہے۔
عبادت آخرت کے لیے ہے، مگر انسانیت دنیا کے لیے۔
جب انسان ہی نہ بن سکے، تو عبادت، نماز، روزہ سب بے مقصد رہ جاتے ہیں۔
اللہ نے فرشتوں سے حضرت آدمؑ کو سجدہ کروایا، اس وقت آدم نے عبادت نہیں کی تھی — وہ انسان بنے تھے۔
اس لیے سب سے بڑی عبادت انسان بننا ہے۔
پہلے انسان بن جائیے، پھر عبادت خود روح بن جائے گی۔
