تحریر و تحقیق ڈاکٹر ملک نفیس بھٹہ
نیوز سینٹرز پاکستان اسپیشل فیچر ایڈیشن
طاقت، ترمیم، اور پسِ پردہ معاہدے ایک آئینی کہانی جو عام نہیں
یہ کہانی ایک ترمیم کی نہیں، طاقت کے اس کھیل کی ہے جس میں بظاہر قانون بدلا گیا،
مگر دراصل طاقت کے محور بدل گئے۔
ستائیسویں آئینی ترمیم جس کا مقصد آرٹیکل 243 میں ’’وضاحت‘‘ لانا بتایا گیا —
درحقیقت ایک سیاسی و عسکری تصادم کی دستاویزی شکل بن گئی۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ریاست کے دو دائروں نے پہلی بار خاموشی سے ایک دوسرے کو چیلنج کیا،
اور پارلیمان محض ایک کوریج پلیٹ فارم بن کر رہ گیا۔
خفیہ آغاز — جب “فائیو اسٹار جنرل” کا شوشہ پھڈا
ذرائع کے مطابق کہانی اس وقت شروع ہوئی جب حکومت نے اچانک فیصلہ کیا
کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ’’فائیو اسٹار جنرل‘‘ کا اعزازی درجہ دیا جائے۔
بظاہر یہ ایک روایتی اعزاز تھا،
مگر جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے سربراہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کے لیے
یہ ایک غیر معمولی اشارہ بن گیا۔
اگر ایک عہدہ چار ستاروں کے برابر ہو مگر رینک میں ایک کم درجے پر نظر آئے،
تو عسکری حرارکی میں خاموش دراڑ جنم لیتی ہے۔
اسی دراڑ کو بند کرنے کے لیے ترمیم کا ڈھانچہ تیار کیا گیا —
مگر یہ عمل جلد ہی ایک سیاسی زلزلہ بن گیا۔
حکومتی اختلافات — بند کمروں کی کہانی
وزارتِ دفاع، قانون، اور وزیراعظم آفس کے مابین ہونے والے اجلاسوں میں
شدید اختلافات ریکارڈ پر آئے۔
کچھ وزراء نے خبردار کیا کہ اگر یہ قدم آئینی تحفظ کے بغیر اٹھایا گیا،
تو مستقبل میں یہ سیاسی خودکشی ثابت ہو سکتا ہے۔
مگر دوسری جانب ایک طاقتور حلقہ بضد تھا کہ
یہ اقدام فوجی قیادت کے اعتماد کی علامت ہے،
اسے چیلنج کرنا ریاستی ڈھانچے کو کمزور کرے گا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب جمہوری مشاورت کو عسکری توازن کے نام پر قربان کر دیا گیا۔
ترمیمی مسودہ پیپلز پارٹی کو اعتماد میں لیے بغیر کابینہ سے منظور کرا لیا گیا۔
پیپلز پارٹی کا دوٹوک پیغام — “18ویں ترمیم سے کھیلنا بند کرو“
پیپلز پارٹی نے واضح طور پر حکومت کو خبردار کیا کہ
اگر 27ویں ترمیم سے وفاقی بالادستی صوبائی خودمختاری پر حاوی ہوئی،
تو ہم غیر جانب دار نہیں رہیں گے۔
مگر حکومت نے یہ انتباہ نظر انداز کر دیا۔
جلد بازی میں فائل پر دستخط ہوئے،
اور ایک بار پھر سیاسی اتفاق رائے قربان ہو گیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب بحران نے خاموشی سے پارلیمان کے دروازے پر دستک دی۔
اپوزیشن کا واویلا — “18ویں ترمیم کا بھوت”
پاکستان تحریکِ انصاف نے 27ویں ترمیم کو
’’جمہوریت کے خلاف چال‘‘ قرار دیا۔
ان کے نزدیک حکومت وفاق کو مضبوط کرنے کے نام پر
صوبوں کے حقوق محدود کر رہی تھی۔
مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن کا شور پارلیمانی میدان میں گونجا ضرور،
مگر اثر نہیں چھوڑ سکا۔
کمیٹیوں میں دی گئی تجاویز کو میز کے نیچے رکھ دیا گیا،
اور یوں ایک آئینی ترمیم اعتماد کے ٹوٹنے کی علامت بن گئی۔
فوجی اداروں کا مؤقف — خاموش تائید یا محتاط فاصلہ؟
افواجِ پاکستان نے ترمیم پر کوئی باضابطہ بیان نہیں دیا۔
تاہم اندرونی ذرائع کے مطابق، ترمیم کا مقصد ادارہ جاتی وضاحت لانا تھا
تاکہ مستقبل میں کسی افسر کو رینک اور عہدے کے تضاد کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
کچھ دفاعی مبصرین کے مطابق،
یہ فیصلہ جنرل ساحر شمشاد مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد
نئے عسکری ڈھانچے کی تیاری سے جڑا ہوا ہے۔
مگر سیاسی حلقوں نے اسے اقتدار کی لائن سیدھی کرنے کا منصوبہ قرار دیا۔
پارلیمانی محاذ — اکثریت کی جیت، اخلاقیات کی مات
پارلیمنٹ میں ترمیم کا مسودہ پیش ہوا تو حکومتی بینچوں نے حمایت میں نعرے لگائے،
مگر اتحادی جماعتوں کے چہرے خاموش مگر ناراض تھے۔
اپوزیشن نے واویلا کیا، مگر عددی اکثریت حکومت کے ساتھ تھی۔
یوں ترمیم قانونی طور پر پاس ہو گئی،
مگر اخلاقی طور پر حکومت کمزور دکھائی دی۔
پیپلز پارٹی نے مشروط حمایت کا اعلان کیا —
مگر قومی اتفاق رائے پھر بھی پیدا نہ ہو سکا۔
خفیہ شق — صدرِ مملکت کے اختیارات میں کٹوتی کی کوشش
ذرائع کے مطابق، ابتدائی ڈرافٹ میں ایک اہم شق شامل تھی
جس کے تحت صدرِ مملکت کے فوجی تقرریوں کی توثیق کے اختیارات محدود کیے جانے تھے۔
یہ شق آخری لمحات میں ’’نامعلوم دباؤ‘‘ کے باعث حذف کر دی گئی۔
یہی وہ موڑ تھا جہاں “پاور پلیے” کی اصطلاح نے جنم لیا۔
سوال آج بھی زندہ ہے —
آخر وہ کون تھا جس نے صدر کے قلم سے اختیار کا وزن چھیننے کی کوشش کی؟
نتیجہ — آئین یا انا؟
اگر حکومت وقت پر قوم کو اعتماد میں لیتی
اور اپوزیشن کو شریکِ مشاورت بناتی،
تو آج یہ ترمیم ایک اتفاقِ رائے کی علامت بنتی، تنازع نہیں۔
مگر سیاست نے پھر وہی کیا جو وہ ہمیشہ کرتی ہے —
اقتدار کے کھیل میں آئین کو بلی کا بکرا بنا دیا۔
طاقت وقتی ہے، مگر آئین دائمی۔
اور جب سیاست آئین کے مقابل کھڑی ہو جائے،
تو جیتنے والے بھی دراصل مات کے دہانے پر کھڑے ہوتے ہیں۔
🏛️ تاریخی و آئینی پس منظر — طاقت کی لکیر کہاں سے شروع ہوئی؟
پاکستان کی آئینی تاریخ دراصل اختیارات کے ارتقاء کی داستان ہے۔
18ویں ترمیم نے صوبائی خودمختاری کی بنیاد رکھی،
21ویں ترمیم نے قومی سلامتی کے دائرے میں فوجی عدالتوں کو وقتی آئینی تحفظ دیا،
اور 25ویں ترمیم نے فاٹا کو قومی دھارے میں لا کر ایک نیا وفاقی توازن قائم کیا۔
مگر ان تمام ترامیم کا مرکزی نکتہ ایک ہی رہا —
طاقت کی تقسیم۔
کہ آئین کی اصل طاقت کہاں سے نکلتی ہے:
پارلیمان سے، صوبوں سے، یا سلامتی کے اداروں سے؟
27ویں ترمیم اسی تاریخی بہاؤ کا تسلسل ہے —
جہاں بظاہر ’’وضاحت‘‘ کی آڑ میں طاقت کے نقشے پر نئی لکیریں کھینچی گئیں۔
یہی وہ لمحہ ہے جب آئین ایک بار پھر
سیاسی نیت، عسکری ضرورت، اور عوامی اعتماد کے بیچ پھنس گیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق، پاکستان کے آئینی ارتقاء میں اب ہر ترمیم
صرف قانون نہیں بلکہ طاقت کے توازن کا نیا اعلان بن چکی ہے۔
لہٰذا 27ویں ترمیم کو سمجھنا محض قانونی مطالعہ نہیں،
بلکہ ریاستی طاقت کی حرکیات (Power Dynamics) کو سمجھنا ہے۔
اختتامی نوٹ
27ویں ترمیم صرف ایک قانونی تبدیلی نہیں —
یہ پاکستان کے طاقت کے توازن میں نیا باب ہے۔
اب نظریں اگلے پارلیمانی اجلاس، عدالتی تشریح،
اور عسکری کمانڈ کی تنظیمِ نو پر ہیں —
کیونکہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی،
اصل باب ابھی لکھا جانا باقی ہے۔
